وینٹی لیٹر کہانی

وینٹی لیٹر  کہانی 

کہتے ہیں سانس انسانی زندگی کی وہ کنجی ہے جس کے بغیر   بیمار  تو  کیا صحت مند انسان بھی زندہ نہیں رہ سکتا، کہا جاتا ہے کہ انسان  کی  زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اُسے خاص کر بیماری کی حالت میں اپنی سائنس بحال کرنے کے لئے کسی دوسرے انسان یہ مشین کی طلب ہوتی ہے۔

آج کے جدید دور سے چند صدی قبل جب میڈیکل سائنس کا نام و نشان تک نہ تھا حکیم  و  طبیب بیمار انسانوں کی زندگی میں آنے والے ایسے ہی پلوں میں سانس بحالی کے لئے قدیم ٹوٹکے استعمال کرتے ہوئے اپنے سی آخری کوشش کرتے تھے جو بعض اوقات کارگر اور بعض اوقات ناکام ثابت ہوتے تھے

صدیاں  اور ادوار کے گزرنے کے ساتھ  انسانی زندگی میں جدت کی نئی لہر  کی بدولت   آج کی جدید دنیا میں ان روایتی اور قدیمی ٹوٹکوں کی جگہ میڈیکل سائنس لے رکھی ہے جس کی ایک خاص وجہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ  ہے جس کا تذ کرہ ہم اپنے گزشتہ آرٹیکل میں کر چکے ہیں

آج بائیو میڈیکل انجینئرنگ کی مدد سے تیار  ہونے والی نت نئے جدید آلات اور مشینوں کی تیاری میڈیکل سائنس  کو مریضوں کے بروقت علاج اور جان بچانے  جیسی  مشکل صورت حال میں اہم معاونت فراہم کر رہے ہیں انہیں آلات اور مشینوں میں ایک اہم نام وینٹی لیٹر کا بھی ہے جو مشکل حالات میں نہ صرف ڈاکٹروں کو معاونت فراہم کرتا ہے اور مریض کی جان بچانے میں بھی  اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سنہ 1937 میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے موجد ایڈورڈ  بوتھ نے دنیا کا پہلا وینٹی لیٹرایجاد کیا جس کا شروعاتی ماڈل سنہ 1928 میں امریکی صنعتی حفظان صحت فلیپ ڈرنکر نے ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے فزیولوجی انسٹریکٹر لوئس اگاسیز شا  کی مدد سے تیار کیا 

"یہ  وینٹیلیٹر  بعدازاں بوتھ ریسیپریٹر کے نام سے مشہور ہوا"

بائیو میڈیکل انجینرنگ  کے اس شہکار ایجاد کا استعمال بیسویں صدی کے آغاز میں پولیو وائرس کی وبا کے پہلاو کے ساتھ شروع  ہوا اپنے شروعاتی دور میں اس جان بچانے والی مشین کو آئرن لنگز کے نام سے پکارا گیا

 یہ ایک نیگیٹیو  ٹائپ پریشر وینٹی لیٹر تھا   سنہ 1931سے 1937 کے سات   سالہ  دور میں  ان وینٹی لیٹرز میں بوتھ اورامریکا  سے تعلق رکھنے والے موجود جون ہیون  ایمرسن کی جانب سے کامیابی کے ساتھ جدتیں پیدا کی گئیں

یہاں ہم اپنے معزز قارئین کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتاتے چلیں کہ بائیو میڈیکل انجینرنگ کی دنیا میں اب تک دو مختلف اقسام کے وینٹیلیٹرز تیار کئے گئے ہیں نیگیٹیو پریشر وینٹی لیٹر اور پوزیٹو پریشر وینٹی لیٹر۔

اگرچہ نیگیٹو پریشر وینٹی لیٹر کا استعمال پولیو وائرس کے پہلاو کے درمیان وسیع پیمانے پر کیا گیا لیکن  پوزیٹو پریشر وینٹی لیٹر کی موجودگی میں آج اس ٹیکنالوجی کا استعمال تقریباً ختم کردیا گیا ہے ان وینٹی لیٹر کا طریقی استعمال آج کے جدید وینٹی لیٹر سے بلکل مختلف تھا

آئرن لنگز

اپنی بناوٹ کے لحاظ سے یہ وینٹی لیٹرز ایک صندوق نما چیمبر سے مطابقت رکھتا تھا جو سینہ تک مریض کو کور کرتا اوراستعمال کے لئے اس میں مریض کو منتقل کرنا ضروری تھا یہ چیمبر پھیپھڑوں میں ہوا کو کھینچنے کے لیے مریض کے سینہ کے باہر منفی دباو بناتا تھا۔

دوسری جانب موجودہ جدید پوزیٹو ٹائپ وینٹی لیٹرز ہیں جو خاص نالیوں اور ماسک کے ذریعے ہوا کو پھیپڑوں تک منتقل کرتے ہیں جن کا کام مختلف صورتحال کے حساب سے مریض کو سانس لیے کے دوران ہوا کا دباو برقرار رکھنا ہوتا ہے


 

پوزیٹو ٹائپ وینٹی لیٹرز


عام طور یہ وینٹی لیٹرز جدید سوفٹ وئیرز اور اسکرینز سے منسلک ہوتے ہیں جو مریض کے علاج کے دوران ڈاکٹر کی معاونت کے لئے مختلف نوعیت کی تجزیاتی رپورٹس فراہم کرتی ہیں

سنہ 1949ء میں جون ہیون ایمرسن نے ہاورڈ یونیورسٹی کے اینایستھیزیا ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے اینایستھیزیا کے لئے  میکنکل معاون تیار کیا جس کی تیاری میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی بائیسکل کمپنی سٹرمی آرچرنے خاص مدد فراہم کی۔

سنہ 1937 میں وینٹیلیٹر کی ایجاد کے ساتھ ہی اس میں جدتوں کا سلسلہ زور پکڑ گیا جس میں وقتاً فوقتاً مختلف ممالک، تنظیموں، ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور صنعتوں نے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی بائیو میڈیکل انڈیسٹری کی یہ ایجاد شعبہ صحت میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہے جس کہ ایک اہم مثال  2019 میں پہلی کرونا وائرس کی وبا ہے جس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں آلیا۔



اپنی تمام تر ریسرچ اور تجزیہ کے بعد ہم یہ ضرور کہیں گے اس ایجاد کو نظریہ ضرورت کہیں یہ اہمیت لیکن اس ایجاد کا کسی ایک موجد کو نہیں بلکہ دنیا میں ہر اُس سائنسدان، موجد اور ڈاکٹر کو جاتا ہے جس نہ اس ایجاد کی ضرورت کو سمجھا۔

آپ کی وینٹی لیٹر سے متعلق کیا رائے ہے ہمیں کمنٹ سکیشن میں میں اپنی قیمتی  آرا  سے ضرور آگاہ کریں، شکریہ

ازقلم سید مرتعٰظی حسن